بھگا کر دم لیں گے
کاش میں جواں ہوتا میرے ہاتھوں میں رعشہ نہ ہوتا پاؤں
لڑکھڑانے کے مرض میں مبتلا نہ ہوتے میری آواز میں شباب کا جوش ہوتا میری قوت گویائی میں جوانی کی روانی ہوتی میرے گھٹنوں کا درد نہ ہوتا غربت کا مارا ہوا بوڑھا مسلمان ہوں بچے بیروزگار ہیں اہلیہ بھی بیمار رہتی ہیں بیٹیاں جواں ہوگئیں ان کی شادی کی فکر بھی لاحق ہے
کرپشن اس ملک کا مقدر ہے مافیاز اس وطن کے رکھوالے اور بھیڑیے اس مملکت خدا داد کے وارث بنے پھرتے ہیں
مہنگائی سے تنگ آکر سیکڑوں لوگوں نے خود کشیاں بھی کرلیں ہیں، میری عمر کا تقاضا تو یہ ہیکہ اب میں خاموش بیٹھ جاؤں اپنی نماز تسبیح و اذکار میں لگ جاؤں مگر مجھ سے میرا رب پوچھے گا کہ بتاؤ جب علماء حق ان ظالم جابر حکمرانوں کے خلاف سراپا میدان میں نکلے تھے تو تم کہاں کھڑے تھے ؟
تب کیا جواب دوں گا بس یہی کہہ سکتا ہوں کہ خدایا اعصاب کمزور پڑ چکے تھے غربت نے میرے جذبات میری صلاحیتوں میرے ارمانوں اور آرزوؤں کا گلا گھونٹ دیا تھا
میں ضعیف عمری کو پہنچا تھا لیکن پاکستان نامی ایک ملک میں سفید ریش عالم بنام مولانا فضل الرحمٰن کی کاوشوں کا چشم دید گواہ ہوں بس میں اور کچھ نہ کر سکا ایک امید تھی ایک اعتماد تھا یقین تھا کہ یہ شخص ان حالات میں ہم غریبوں کی فریاد رسی کرے گا
جب سارے لوگ بک گئے تھے دب گئے تھے ڈر کے مارے تتر بتر ہوگئے تھے تب میں نے کسی روز ریاست نامی اخبار کے فرنٹ پیج پر مولانا صاحب کا بیان پڑھا تھا کہ، بھگا کر دم لیں گے،
میرا تخیل ہیکہ اس بوڑھے بابا نے یہ باتیں سوچتے ہوئے ایک آہ بھری ہوگی اور دھابے والے کو اشارہ کیا ہوگا کہ، بیٹا آدھا کپ چائے لانا تھوڑا سر درد کر رہا
ہے۔
Twitter @IhsanMarwat_786
No comments:
Post a Comment